دینی امور میں مصر کے باشندوں کو پوری آزادی دی گئی۔ جان‘ مال‘ عزت ہر چیز کی حفاظت کا اطمینان دلایا گیا حتیٰ کہ عیسائیوں کا پیشوائے اعظم بن یامین جو تیرہ سال سے رومیوں کے خوف سے روپوش تھا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ نے بلوا کر اسے اپنے منصب پر مامور کیا اور گرجاؤں کے متعلق جو کچھ رعایتیں طلب کیں دی گئیں۔ مذہبی آزادی ملنےپر عیسائیوں نے بڑی خوشیاں منائیں اور گرجوں میں تقریریں ہوئیں۔اسقف باصلی نے اپنی تقریر کے دوران کہا: ’’رومیوں کے دیرینہ مظالم کے بعدا ٓج میں اسکندریہ میں نجات و طمانیت کا دور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ مسلمانوں کی نگاہ میں یہودی نصرانی‘ مشرک ستارہ پرست سب یکساں تھے اور مسلمان ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا برتاؤ کرتے تھے‘ مسلمانوں کے حسن سلوک اور مساوات کو دیکھ کر غیرمسلم جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ عربی زبان بھی اختیار کرنے لگے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمانہ بعد میں مصر اسلامی تہذیب کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔جب مسلمانوں نے اسکندریہ فتح کیا تو اسلامی فوج کے کسی شخص کے تیر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مجسمہ کی ایک آنکھ ٹوٹ گئی‘ اس واقعہ سے اسکندریہ کے عیسائیوں کو سخت رنج ہوا وہ لوگ مسلمانوں کے سردار حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ کے پاس گئے اور کہا کہ تمہارے آدمی نے مجسمہ مسیح کی آنکھ پھوڑ دی ہے تم بھی اپنے پیغمبر محمد (ﷺ)کا مجسمہ بناؤ اور ہم لوگ اس کے عوض میںمجسمہ کی آنکھ پھوڑ دیں مسلمانوں کے سردار نے کہاکہ یہ بالکل لغو سی بات معلوم ہوتی ہے بہتر یہ ہے کہ مجسمہ کی آنکھ پھوڑنے کی بجائے تم کسی مسلمان کی آنکھ پھوڑ دو‘ ایک عیسائی اس کیلئے تیار ہوگیا خود مسلمانوں کے سردار نے اپنا خنجر اس عیسائی کو دے کر کہا: ’’میری آنکھ حاضر ہے اسے تم پھوڑ دو‘‘ مسلمان سردار کا یہ انصاف دیکھ کر عیسائی کے ہاتھ سے خنجر گرگیا اور اس حرکت سے باز آگیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں